مشت زنی (masturbation) ایک عام انسانی عمل ہے جس کے ذریعے افراد اپنی جسمانی اور ذہنی تسکین حاصل کرتے ہیں۔ یہ عمل عارضی خوشی اور راحت فراہم کرتا ہے، لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ اس کا آپ کے دماغ میں موجود کیمیائی توازن، خاص طور پر ڈوپامین کی سطح پر بھی اثر پڑ سکتا ہے؟
ڈوپامین کیا ہے؟
ڈوپامین ایک نیوروٹرانسمیٹر ہے جو دماغ میں خوشی، انعام اور تحریک کے احساسات سے جڑا ہوا ہے۔ جب آپ کوئی خوشگوار یا فائدہ مند کام کرتے ہیں، جیسے کہ کوئی پسندیدہ کھانا کھانا یا کوئی کامیابی حاصل کرنا، تو آپ کا دماغ ڈوپامین خارج کرتا ہے، جس سے آپ کو خوشی محسوس ہوتی ہے۔
مشت زنی کے دوران ڈوپامین کی سطح کیسے بڑھتی ہے؟
جب آپ مشت زنی کرتے ہیں، تو آپ کا دماغ ڈوپامین کی ایک بڑی مقدار خارج کرتا ہے۔ یہ اضافہ عارضی طور پر خوشی اور تسکین کا باعث بنتا ہے۔ تاہم، اگر یہ عمل بار بار کیا جائے تو دماغ کو زیادہ مقدار میں ڈوپامین کی عادت پڑ سکتی ہے۔
ڈوپامین کی سطح کیوں کم ہو جاتی ہے؟
بار بار مشت زنی کرنے سے دماغ کی قدرتی ڈوپامین کی پیداوار متاثر ہو سکتی ہے۔ دماغ کو مسلسل زیادہ ڈوپامین کی عادت ہونے کے باعث، وقت کے ساتھ ساتھ اس کی حساسیت کم ہو سکتی ہے، جس کے نتیجے میں دماغ قدرتی طور پر کم ڈوپامین خارج کرتا ہے۔ اس حالت کو “ڈوپامین ڈیسیسنٹائزیشن” کہتے ہیں۔
یہ عمل آپ کے روزمرہ کے معمولات پر بھی اثر انداز ہو سکتا ہے۔ جو سرگرمیاں پہلے آپ کو خوشی فراہم کرتی تھیں، وہ اب کم دلچسپ یا کم تسکین بخش محسوس ہو سکتی ہیں۔ یہ صورتحال “ڈوپامین ڈپریشن” کی طرف بھی لے جا سکتی ہے، جس میں فرد کو خوشی کے احساس کے لیے مزید شدت کے ساتھ اس عمل کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔
کیا یہ اثرات مستقل ہوتے ہیں؟
یہ اثرات عموماً عارضی ہوتے ہیں۔ اگر آپ مشت زنی کو کم کریں یا اس میں وقفہ ڈالیں تو آپ کے دماغ کی ڈوپامین کی سطحیں بحال ہو سکتی ہیں، اور آپ دوبارہ سے ان سرگرمیوں سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں جو پہلے آپ کے لیے خوشی کا باعث بنتی تھیں۔
کب مدد لینی چاہیے؟
اگر آپ کو محسوس ہو کہ آپ کی مشت زنی کی عادت آپ کی زندگی پر منفی اثر ڈال رہی ہے، جیسے کہ آپ کے کام، تعلیم، یا تعلقات میں مشکلات پیدا ہو رہی ہیں، تو یہ بہتر ہوگا کہ آپ ماہرِ نفسیات یا معالج سے مشورہ کریں۔ وہ آپ کو اس حوالے سے بہتر رہنمائی فراہم کر سکتے ہیں۔
خلاصہ
مشت زنی ایک فطری عمل ہے، لیکن اس کے دماغی کیمیائی توازن پر اثرات ہو سکتے ہیں، خاص طور پر اگر یہ عمل حد سے زیادہ ہو۔ اپنے جسم اور دماغ کی ضروریات کو سمجھنا اور اعتدال میں رہنا ضروری ہے تاکہ آپ اپنی زندگی کو متوازن اور خوشگوار بنا سکیں۔
مشت زنی اور ڈوپامین: آپ کے دماغ پر اس کے اثرات
بڑھتی عمر کے بچوں کے جذباتی یا نفسیاتی مسائل اور والدین کا کردار
(دوسرا اور آخری حصہ)
اس آرٹیکل کے پہلے حصے میں ہم نے ان مسائل کا ایک مختصر جائزہ لیا تھا جن کا سامنا بڑھتی عمر کے بچوں کو کرنا پڑتا ہے یا کرنا پڑسکتا ہے۔آج ہم انہی مسائل کے ممکنہ حل پر بات کریں گے یعنی والدین کا کردار کیا ہوگا۔
سب سے پہلی اور بنیادی تجویز تو یہ ہے کہ اپنے بچوں کے بہترین دوست بن جائیے۔ یہ بات ذہن نشین کرلیجیے کہ آپ کو اپنے بچوں کا فرینڈ نہیں بلکہ بیسٹ فرینڈ بننا ہے۔بیسٹ فرینڈ کون ہوتا ہے ؟ جس سے انسان اپنے دل کی ہر بات ، اپنے ذہن میں آنے والی ہر اُوٹ پٹانگ سوچ ، اپنے محسوسات اور اپنی بدلتی کیفیات ، بِنا کسی خوف اور شرمندگی کے شئیر کرسکتا ہے۔ جس طرح ایک بچے کے دل میں یہ بات بیٹھ چکی ہوتی ہے کہ جب بھی اس کے پیٹ میں درد ہوگا یا اسے کسی قسم کی جسمانی تکلیف پیش آئے گی اس نے فوراً اپنی ماں سے زکر کرنا ہے اور اس کے والدین اس کا کوئی نہ کوئی سدِباب کریں گے ۔ بالکل اسی طرح بچے کو یہ پتہ ہونا چاہیے کہ اس نے اپنی ہر الجھن اور زہن میں آنے والا ہر سوال اپنے ماں باپ سے شئیر کرنا ہے۔ یہ تعلق بچے کے بولنے سے لے کر تاحیات قائم رہنا چاہیے۔ بیٹی کے لیے ماں اور بیٹے کے لیے باپ سے بڑھ کر بہترین دوست دنیا میں کوئی اور نہیں ہوسکتا۔
اس سلسلے میں والدین کو بھی اپنا حصہ ڈالنا ہوگا۔ اپنے ضروری کاموں سے بچ جانے والا وقت بچوں کو دیجیے۔ آج کا باپ، دفتر یا کام سے واپس آکر موبائل سرفنگ اور شارٹ ویڈیوز کو دیکھ کر ریلیکس ہونے کی کوشش کرتا ہے۔ اس وجہ سے وہ بچوں کو مناسب وقت نہیں دے پاتا۔ یہی حال ماں کا ہے کہ گھر کے کاموں سے نمٹنے کے بعد بچ جانے والے وقت میں ، ساس بہو والا ڈرامے یا مہنگے ملبوسات کی ترغیب دلاتے مارننگ شوز دیکھ کر اپنی فرسٹریشن نکالی جاتی ہے۔ یقیناً سب والدین ایسا نہیں کرتے لیکن اکثریت کا یہی معاملہ ہے۔ چھوٹے بچے بہت زیادہ سوالات پوچھنے کے عادی ہوتے ہیں کیونکہ ان کی معصوم فطرت تجسس سے بھرپور ہوتی ہے۔ جلد ہی والدین ان کی فطرت سے تنگ آکر انہیں ڈانٹ کر خاموش کروانا شروع کردیتے ہیں۔ یہاں تک کہ ایک وقت آتا ہے کہ بچے اپنے والدین سے دور ہونے لگتے ہیں اور انہیں یقین ہوجاتا ہے کہ ان کے والدین ان کے لیے ایک مالی سپورٹ کا وسیلہ تو ہیں لیکن باقی معاملات کے لیے انہیں اپنے دوستوں یا دوسرے لوگوں سے رجوع کرنا ہے کیونکہ والدین کے پاس بچوں کو سننے کا وقت نہیں ہے۔ اگر آپ کے گھر میں بھی یہی معاملہ ہے تو اسے آج سے بدلنا شروع کیجیے۔ میاں بیوی دونوں ایک دوسرے سے بات کریں اور بچوں کو وقت دینا شروع کردیں۔ آپ کو تفریح سے ہرگِز منع نہیں کیا جارہا لیکن دن بھر میں چھ چھ گھنٹے بِلا مقصد موبائل یا ٹیلی ویژن سکرین سے چپکے رہنا ، ناصرف آپ کی دماغی صحت اور نظر کے لیے نقصان دہ ہے بلکہ آپ کے سب سے قیمتی سرمائے ، یعنی آپ کی اولاد کو بھی آپ سے بتدریج دور کررہا ہے۔ اس پہ ضرور سوچیے۔
جب بچہ سکول جانے کی عمر میں آجائے تو والدین کی ذمہ داری مزید بڑھ جاتی ہے۔ اس سے پہلے بچہ سارا دن ماں کی نگرانی میں تھا۔ اب وہ دن کا ایک حصہ گھر سے باہر گذارے گا اور اس حصے میں ماں اس کے ساتھ نہیں رہ سکتی۔ لیکن اب تک چونکہ آپ کے بچے کو ہر بات والدین سے شئیر کرنے کی عادت پڑ چکی ہوگی تو اگر بچے کے ساتھ کچھ بھی روٹین سے ہٹ کر ہوگا تو آپ کے علم میں آجائے گا۔ اچھے سکولوں میں پیرنٹ ٹیچر میٹنگ کا باقاعدگی سے اہتمام کیا جاتا ہے جس کے ذریعے والدین کو بروقت بچے کی تعلیمی کارکردگی کے ساتھ ساتھ اس کی اخلاقی تربیت کا بھی اندازہ ہوتا رہتا ہے۔ اگر سکول آتے جاتے بچے کو کوئی نامناسب انداز میں چھوئے، چاہے وہ وین کا ڈرائیور ہو یا کوئی چوکیدار یا پھر محلے کا کوئی اوباش تو بچے کو پراعتماد ہونا چاہیے کہ وہ اپنے والدین کو آگاہ کرسکتا ہے۔ ایسی صورتحال یا بچے کے تجسس بھرے سوالوں پر کبھی بھی غصہ نہ کیجیے نا ہی بچے کو ڈانٹ کر خاموش کروائیں۔ اگر آپ کا کم سِن بچہ اپنے سے بڑے کسی کزن ، رشتہ دار یا کسی استاد کے ساتھ حد سے زیادہ جذباتی وابستگی کا اظہار کرے یا ان سے ملنے میں خوفزدہ ہو، تو دونوں صورتوں میں غیر محسوس طریقے سے کوئی بھی پھڈا بنائے بغیر اس معاملے کی تحقیق کیجیے۔ بچوں کو ہمیشہ اپنے ہم عمر لوگوں سے دوستی کی عادت بنانے کی تلقین کیجیے اور اس معاملے پہ ان کی نگرانی بھی کرتے رہیے۔
اپنے بچوں کو ان کے بچپن سے ہی موبائل اور سکرین ایڈکشن کے نقصانات ، ان کی عمر کے حساب سے سمجھاتے رہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ انہیں جسمانی سرگرمیوں کی ترغیب دینا اور فوائد بتانا بہت ضروری ہیں۔ آج کے بچے اور نوجوان ، موبائل ایڈکشن کی وجہ سے تیزی سے سماجی تعلقات سے دور ہوکر سوشل اینزائٹی کا شکار ہوررہے ہیں۔ اگر بچے کے رویے میں کوئی غیر فطری تبدیلی نوٹ کریں تو وجہ جاننے کی کوشش کریں اور اس کا حل بھی تلاش کریں۔ ایک غیر فظری رویہ جو معاشرے میں بہت تیزی سے عام ہورہا ہے وہ لڑکوں اور لڑکیوں دونوں میں جنسِ مخالف کی طرف رغبت کی بجائے اپنی ہی جنس کی کشش محسوس کرناہے۔ اس حوالے سے بے شمار لڑکوں نے مجھ سے رابطہ کیا اور بتایا کہ انہیں زندگی میں کبھی بھی کسی لڑکی کے حوالے سے کوئی فیلنگ نہیں آئی بلکہ صرف لڑکے اچھے لگتے ہیں اور ہر دوسرے مہینے کسی نئے لڑکے یا مرد سے ایسی جذباتی وابستگی ہوتی ہے کہ رات رات بھر اس سے موبائل پہ بات چیت رہتی ہے اور اس کے میسجز کے انتظار میں دل بے چین رہتا ہے۔ یہ ایک نفسیاتی مسئلہ ہے اور والدین کی بروقت مداخلت اور بچوں کی مناسب کونسلنگ سے اس پر قابو پایا جاسکتاہے۔ اگر نیا نیا بالغ ہوتا لڑکا ، بیت الخلاء میں معمول سے زیادہ وقت گزارنے لگے تو اس پر بھی توجہ کی ضرورت ہے۔ آج کل بچے سکول میں اپنے دوستوں سے خود لذتی کے نئے نئے طریقے سیکھ کر آتے ہیں اور پھر اس کی مشق بھی کرتے ہیں۔ مجھے ایک نوجوان نے بتایا کہ بارہ سال کی عمر میں جب اس کے پاس اپنا موبائل بھی نہیں تھا ، تب سے وہ اپنی والدہ کے موبائل پہ چھپ کر آنلائن پورنوگرافی دیکھتا رہا ہے اور بعد میں وہ ہِسٹری ڈیلیٹ کردیتا تھا۔ ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستانی میں فحش ویب سائٹس پہ پابندی ہے۔ اب یہاں سے آپ بچوں کی ذہانت یا تخریب کاری کا اندازہ لگا لیجیے کہ وہ ان ویب سائٹس تک بھی کم عمری میں رسائی حاصل کرلیتے ہیں۔ اس لیے بچے کی ہر سوچ اور اس کے رویے میں آنے والی ہر تبدیلی سے والدین کو آگاہ رہنا چاہیے۔
چھوٹے اور نابالغ بچوں کو پرائیویسی جیسی ماڈرن بلا کے نام پہ اکیلا کمرہ مت دیجیے۔ بہنوں کو ایک کمرہ اور بھائیوں کو ایک کمرہ شئیر کرنا سکھائیے لیکن بستر الگ الگ ہو۔ وہ ایک دوسرے کی موجودگی کا لحاظ کرتے ہوئے غیر اخلاقی کاموں سے بچنے کی کوشش کریں گے۔ بچوں کو اپنا کمرہ لاک کرنے کی عادت نہیں ہونی چاہیے۔ لیکن اب اگر یہاں آپ بچوں پہ یہ ظاہر کریں گے کہ آپ کو ان پر اعتماد نہیں تو اس سے ان کی شخصیت مجروح ہوگی اور سوچ میں منفیت آئے گی۔ آپ ان سے یوں کہیے کہ دروازہ اس لیے لاک نہیں کرنا کہ کسی کی اچانک طبیعت خراب ہوسکتی ہے یا بجلی کا کرنٹ وغیرہ لگ سکتا ہے، ایسی صورت میں کمرہ لاک ہونا ، نقصان دہ ہوگا۔ بڑھتی عمر کے بچوں کو گھر میں اتنا پیار اور توجہ دیں کہ انہیں محبت کے نام پہ گھر سے باہر کوئی رنگین دھوکہ نہ ملے خصوصاً بچیوں کو۔ جن بچوں کو یہ یقین ہوتا ہے کہ ان کے والدین ان کے ساتھ مخلص ہیں اور ان سے بے پناہ محبت کرتے ہیں ، عموماً وہ وقت سے پہلے شادی یا محبت کے چکروں میں نہیں پڑتے اور ان معاملات میں فیصلے کا اختیار اپنے والدین کے سپرد کردیتے ہیں۔
ویسے تو اس موضوع پہ بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے لیکن فی الحال کے لیے اتنا کافی ہے ورنہ پڑھنے والے اُکتا جائیں گے۔ آخر میں والدین سے ایک گزارش ہے کہ اپنا قیمتی وقت موبائل پہ مزاحیہ ویڈیوز ، عشقیہ ڈراموں اور طویل سیزنز اور سیریز دیکھنے پر صرف کرنے کی بجائے اپنے بچوں کو اپنی توجہ کا محور اور مرکز بنائیے۔ اپنے زریعہ معاش کو بھی مناسب وقت ضرور دیجیے لیکن اس کے پیچھے دن رات ایک کرنے سے گریز فرمائیے۔ رزق دینے والی زات اللہ رب العزت کی ہے۔ اگر آپ اپنے بچوں کی اچھی تربیت کرنے میں کامیاب ہوگئے تو یقین کیجیے کہ وہ اپنے لیے خود زندگی میں بہت کچھ کرلیں گے۔ آپ کو لمبی چوڑی جائیداد چھوڑ کر جانے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔
اپنی تمام تر کوششوں کے بعد اللہ سے اولاد کی ہدایت اور بھلائی بھی مانگتے رہیے۔ اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔
رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَ ذُرِّیّٰتِنَا قُرَّةَ اَعْیُنٍ وَّ اجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا۔
اے ہمارے رب ! ہمارے ازواج اور ہماری اولاد سے ہمیں آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرمااور ہمیں پرہیزگاروں کا پیشوا بنا۔
بڑھتی عمر کے بچوں کے جذباتی یا نفسیاتی مسائل اور والدین کا کردار. (پہلا حصہ)
اولاد کی پرورش اور تربیت ایک کٹھن اور صبر آزما مرحلہ ہے۔ اگر اللہ رب العزت والدین کے دل میں اولاد کی بے پناہ محبت نا ڈال دیتے تو دنیا میں کوئی بھی ماں یا باپ اولاد کی پرورش میں وہ مشقت برداشت نہ کرپاتے جو انہیں کرنی پڑتی ہے۔ چنانچہ بچے کی پیدائش کے ساتھ ہی بلکہ یوں کہیے کہ حمل کی خوشخبری ملتے ہی ، بچے کے لیے بہتر سے بہترین خوراک ، لباس اور سہولیات کی منصوبہ بندی شروع ہوجاتی ہے۔ دنیا میں شاید ہی کوئی ماں یا باپ ایسے ہوں جو اپنے بچے کو اپنی استظاعت سے بڑھ کر سہولیات نہ دینا چاہتے ہوں بلکہ اپنا پیٹ کاٹ کر بچوں کو بہترین خوراک اور تعلیم دلوانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ماں اپنی رات کی نیند اور باپ دن کا آرام تک قربان کردیتا ہے۔ یہ تو ہوگیا زکر والدین کی چند قربانیوں اور کاوشوں کا جو ،اُن کے خیال میں بچے کی پرورش اور تربیت کے لیے ضروری ہیں۔ لیکن کیا بچوں کو جسمانی ضروریات اور مادی سہولیات فراہم کر دینے سے والدین کا فرض پورا ہوجاتا ہے ؟ ۔۔۔۔۔یا والدین کا فریضہ اس سے بھی بڑھ کر کچھ ہے ؟۔۔۔۔۔۔کیا ہم بچے کی نفسیاتی اور جذباتی ضروریات اور احساسات کو بھی اتنا ہی اہم سمجھتے ہیں جتنا اس کے لیے لباس ، خوراک اور ایک اچھا گھر بنانے کی دوڑ میں لگے ہیں؟اس بے حد اہم موضوع پہ ایک بہت بڑا سوالیہ نشان موجود ہے جس کا جواب تلاش کرنا بے حد ضروری ہے۔
جب بارہ اور چودہ سال کے کم سِن بچے مجھ سے واٹس ایپ پہ رابطہ کرتے ہیں اور ڈرے سہمے انداز میں یہ انکشاف کرتے ہیں کہ وہ کسی لت یا ایڈکشن میں گرفتار ہیں اور اپنا مسئلہ گھر میں کسی سے بھی شئیر نہیں کرسکتے تو مجھے یہ اندازہ لگانے میں کچھ مشکل پیش نہیں آتی کہ والدین اپنے بچوں سے کتنے دور ہیں ؟ ایک میلوں دور بیٹھا بچہ یا کوئی ٹین ایجر نوجوان جو بات میرے انباکس میں آکے شئیر کررہاہے وہ بات وہ اپنے والد ، چچا یا بڑے بھائی سے کیوں نہیں کہہ پاتا؟ کتنے ہی ایسے بچے ہیں جو اپنے نئے نئے بالغ ہوتے کزنوں ، کے ہاتھوں اپنی معصومیت کو پامال ہوتا بے بسی سے دیکھتے ہیں لیکن ڈر کی وجہ سے اپنے والدین سے زکر نہیں کرپاتے۔ جب بچہ شعور کی ابتدائی سطح پہ قدم رکھتا ہے تو اسے رہنمائی کی شدید ضرورت پڑتی ہے۔ وہ معصوم سوال تو پوچھتا ہے لیکن اپنی عقل یا فہم سے صحیح یا غلط کا فیصلہ نہیں کرپاتا۔ یہاں اسے والدین کی سب سے زیادہ ضرورت ہے لیکن آج کے ترقی یافتہ اور مادیت پرستی کے دور میں والدین نے بچوں کی مالی ضروریات کو ہی سب سے اہم سمجھ لیا ہے اور ان کی تکمیل کو اس طرح اپنی بنیادی ترجیح بنا لیا ہے کہ بچوں کی ذہنی ، جذباتی اور نفسیاتی نشوونماکے لیے والدین خاطر خواہ وقت نہیں دے پارہے۔ بچوں کو جو باتیں کسی سمجھدار شخص کو پاس بٹھا کر ڈھکے چھپے الفاظ میں ان کی سمجھ کے مطابق بتانی چاہیئں، ان نازک موضوعات پہ بھی بچے یا تو اپنے ہم عمر بچوں سے کچھ نہ کچھ سیکھ رہے ہیں یا انٹرنیٹ کا سہارا لینے پر مجبور ہیں جہاں اکثر اوقات یوٹیوب ویوز کی لالچ میں آدھی ادھوری اور گمراہ کُن معلومات کو سنسی خیز انداز میں پیش کیا جاتاہے۔
رہی سہی کثر سمارٹ فون کی آسان رسائی نے پوری کر دی ہے۔ ہمارا تین یا چار سال کا بچہ ہم سے فرمائش کرتا ہے کہ اس نے کسی جانور یا کارٹون کی کوئی ویڈیو ہمارے موبائل پہ دیکھنی ہے جیسے کہ میراچار سالہ بیٹا میرے فیس بک کی ریلز (شارٹ ویڈیوز) میں مرغیوں کی ویڈیوز دیکھتا ہے۔ ایسی صورتِ حال میں عین ممکن ہے کہ ہم اپنے چائے یا کافی کے کپ کی طرف صرف دو منٹ کے لیے متوجہ ہوں اور وہ سکرولنگ کرتے کرتے فیس بک ریلز میں کوئی بےہودہ ویڈیو دیکھ لے۔ٹیلی ویژن کھولیں تو وہاں الگ ہی مسائل ہیں۔ ناچ گانے سے سجے مارننگ شوز، بدتمیزی اور رقص کرکے وائرل ہونے والے ٹین ایجرز بچے اور رات آٹھ بجے کے پرائم ٹائم میں عشقیہ قصے اور سالی بہنوئی کے تعلق پہ مبنی واہیات ڈرامے ۔ اب بندہ جائے بھی تو کہاں جائے۔ غرض یہ کہ بچوں کی اخلاقی تربیت ایک ایسا مشکل معاملہ بن چکا ہے جیسے دہکتے کوئلوں پہ ننگے پاؤں چلنا۔ اس میں والدین کی غفلت بچے کی شخصیت میں خلا پیدا کرسکتی ہے ۔
والدین کو سوتے میں بھی اپنی آنکھیں کھلی رکھنی پڑ رہی ہیں کیونکہ یہ جاننا ضروی ہے کہ والدین کے سونے کے بعد بچے کی کیا سرگرمیاں ہیں ۔ ورنہ ناسمجھی میں ان کا بچہ کسی بھی بری لت کا آسانی سے شکار ہوسکتا ہے جن میں منشیات ، فحش فلمیں ، ہم جنس پرستی کا رجحان ، کسی کے ہاتھوں جنسی استحصال ، نازیبا ویڈیوز کی صورت میں بلیک میلینگ کا سامنا کرنا اور کم عمر لڑکیوں کا ہوس ذدہ جھوٹی محبت کے جال میں پھنسنا، چند عام مثالیں ہیں۔
یہاں ایک بات کا زکر کرنا ضروری ہے کہ خواتین کو ان نازک اور سنگین معاملات سے مکمل آگاہی حاصل ہونا بہت ضروری ہے جو بچوں کو پیش آسکتے ہیں۔ کیونکہ والد کا تو دن کا بیشتر حصہ روزگار کے حصول کی جدوجہد میں گزر جاتا ہے اور بچوں کا زیادہ وقت ماؤں کے ساتھ یا ان کی نگرانی میں ہی گزرتا ہے۔ اس لیے ماؤں کی تربیت اور ٹریننگ بہت ضروری ہے تاکہ وہ بچے کی دلچسپیوں اور رجحانات سے اس کے اندر آنے والی تبدیلیوں کا بروقت اندازہ لگا سکیں اور کسی بھی مسئلے کا سامنا کرنے کی بجائے قبل از وقت حل تلاش کیا جاسکے۔ میری والدہ آج بھی ٹیکنالوجی کی باریکیوں سے کافی حد تک ناآشنا ہیں اور یہ بات نہیں جانتی ہیں کہ موبائل اور کمپیوٹر کا کس حد تک منفی استعمال ہوسکتا ہے لیکن آج کے دور کی ماں کو ایسی بے خبری کی خدانخواستہ بہت بھاری قیمت چکانی پڑسکتی ہے۔ اس لیے میں اکثر اپنی بیوی کو ارد گرد ہونے والے واقعات اور ٹیکنالوجی میں آنے والی جدت سے آگاہ کرتا رہتا ہوں تاکہ وہ بچوں سے آگے نہیں تو ان کے ساتھ ساتھ چل سکے۔
بات کچھ لمبی ہوگئی اور پوسٹ میں مسائل کا زکر بھی بہت ہوگیا۔ بڑھتی عمر کے بچوں کے مسائل اس سے کہیں زیادہ ہیں جن کی ایک جھلک آپ کو اس تحریر میں دکھائی دی ہے۔ اگلی پوسٹ میں بچوں کی بہتر تربیت اور نگرانی کے لیے کچھ تجاویز والدین کی خدمت میں پیش کرنے کی کوشش کروں گا۔
اپنے خوف (Social Anxiety) سے کیسے چھٹکارا حاصل کریں ؟
مشت زنی اور فحش فلموں کے عادی عموماً اس خوف کا شکار ہوتے ہیں. یہ لوگ زیادہ تر اکیلا رہنا پسند کرتے ہیں۔ شادی بیاہ یا دیگر تقریبات میں شرکت کرنے سے گھبراتے ہیں ۔ اندر ہی اندر لوگوں سے خوفزدہ رہیتے ہیں۔
اس خوف سے نجات کا آسان سا طریقہ کار ہے۔
اگر آپ اپنے خوف کا سامنا نہیں کرتے تو اس سے چھٹکارا پانا آپ کے لئے نا ممکن رہے گا ۔آپ پوری دنیا کی کتابیں پڑھ چھوڑیں لیکن اگر ان باتوں کو اپنے عمل میں شامل نہیں کریں گے تو ان کتابوں کو پڑھنے کا آپ کو کوئی فائدہ حاصل نہیں ہونے والا ۔اگر آپ اپنے خوف کو ختم کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو اس کے تجربے سے گزرنا ہو گا ۔ اور یہ کام مراحل میں کریں اگر زیادہ مشکل ہو تو بہتر ہے یہ مشق آپ ماہر نفسیات کے ساتھ کریں لیکن اپنے طور پر آپ ان ہدایات پر عمل کر کے اپنے چھوٹے موٹے خوف پر قابو پا سکتے ہیں ۔
پہلا مرحلہ
اپنا تجزیہ کریں کہ اصل میں آپ کو کیا چیز خوف زدہ کر رہی ہے اور پیپر پر لکھ لیں ۔(مثال کے طور پر پریزنٹیشن سے پہلے مجھے ڈر لگتا ہے لیکن کیسا ڈر ؟ جج ہونے کا خوف ؟ معلومات کم ہونے کا احساس ؟ کچھ غلط نہ بولا جائے وغیرہ وغیرہ ) یہ اس لئے تاکہ آپ اپنی اصل وجہ کو جان سکیں اور اسی پر کام کریں ۔
دوسرا مرحلہ
اپنے خوف یا پریشانی کو قابل حصول چلینج میں تبدیل کر لیں پھر روزانہ کی بنیاد پر ان پر کام کریں ۔( مثلا پریزنٹیشن سے پہلے اپنے موضوع کے نوٹس بنا لیں اس پر روزانہ تجربہ کریں کسی دوست کو سنا لیں ، اپنے الفاظ استعمال کریں وغیرہ )۔
تیسرا مرحلہ
اپنے آپ کو فیل یا ناکام ہونے دیں تاکہ آپ اس تجربے سے اپنی کمزوریوں اور طاقت کا اندازہ لگا سکیں ۔ دوسرا ضروری نہیں آپ فیل ہی ہوں ، ہو سکتا ہے آپ کا یہ بہترین تجربہ ہو ۔لوگوں سے فیڈ بیک بھی لے سکتے ہیں ۔
آپ نے بس اپنے رستے سے ہٹنا نہیں ہے۔ یہ پراسیس آپ کے لئے چیلنج ہو سکتا ہے لیکن کچھ نہ کر کے تو کچھ بھی نہیں ملنا ۔اس لئے چاہے تھوڑی سی ہی کامیابی کیوں نہ ہو اس کا ریکارڈ رکھیں یہ آگے بڑھنے میں مدد کرے گا۔ بولنے کا خوف ہے تو لکھنے کی بجاے لوگوں کو بول کر مسیج کریں ۔
جب آپ بار بار تجربہ کریں گے تو آپ کو یہ یاد بھی نہیں رہے گا کہ آپ کو کبھی سوشل خوف بھی تھا۔
ڈوپامائین کیا ہے اور یہ کیسے ہماری عادتوں کو متاثر کرتا ہے ؟
ڈوپامائین ایک نیورو (دماغی) کیمیکل ہے جو دماغ میں اس وقت خارج ہوتا ہے جب ہمیں کوئی خوشی یا لذت ملتی ہے یا ہمیں کچھ اچھا لگتا ہے۔ اچھے لگنے والے مختلف کاموں یا سرگرمیوں سے ڈوپامائین کی مختلف مقدار خارج ہوتی ہے۔ فحش فلمیں دیکھنے سے ڈوپامائین اتنا زیادہ مقدار میں ریلیز ہوتا ہے کہ ماہرین اسے ڈوپامائین شاور کا نام دیتے ہیں۔ یعنی دوسرے لفظوں میں آپ یوں سمجھ لیں کہ فحش فلمیں دیکھنے سے ایسا لگتا ہے جیسے دماغ ڈوپامائین میں نہلا دیا گیا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ فحش فلموں کے عادی شخص کو کسی اور کام میں کوئی دلچسپی یا جوش محسوس نہیں ہوتا کیونکہ اتنا ڈوپامائین کسی اور کام میں ریلیز نہیں ہورہا ہوتا۔ منشیات کی کچھ اقسام کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہوتا ہے۔ ڈوپامائین کے بار بار اخراج کی خواہش سے ، ہماری عادت ، لت یا ایڈکشن میں بدل جاتی ہے اور ہماری زات یا شخصیت سے ہمارا سیلف کنٹرول بالکل ختم ہو کر رہ جاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ہم اپنی خواہش کے ایسے غلام بن جاتے ہیں جس کی ڈوری نفس کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ ادھر ہمارے نفس نے خواہش کی ، اُدھر ہم اسے پورا کرنے کے لیے بےچین ہوجاتے ہیں۔
سیلف کنٹرول واپس حاصل کرنے کے لیے ہمیں خود کو منظم کرنا پڑتا ہے اور اس کے لیے ایک مکمل پلان (منصوبے) کی ضرورت ہے۔ جب ڈوپامائین والی ایک سرگرمی کو بند کرتے ہیں تو اس کے ساتھ ہمیں اپنے آپ کو کچھ ایسا متبادل دینا ہے جس سے ڈوپامائین کا بالکل ہی قحط نہ ہوجائے۔ اس کی مثال یوں سمجھیے کہ اگر ایک آدمی روزانہ چار یا پانچ کپ چائے پیتا ہو اور ڈاکٹر اسے چائے سے مکمل پرہیز بتا دے تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ اس کی حالت کیا ہوگی ؟ اب پہلے تو اس شخص کو پیار سے سمجھانا پڑے گا کہ چائے پینا ، کسی وجہ سے آپ کے لیے نقصان دہ ہے تو اس کو چھوڑنا ہے لیکن آپ دودھ ، قہوہ یا اپنا کوئی پسندیدہ پھل لے سکتے ہیں۔ اس طرح اس شخص کی عادت کو بدلنا آسان ہوجائے گا۔ پہلے ایک مضبوط ذہن سازی کی ضرورت ہے اور پھر اسے وہ فائدہ بتایا جائے جو اسے، اس پرہیز پر ملے گا۔
اس کے علاوہ ہمیں ڈوپامائین ریلیز کرنے والی مختلف سرگرمیوں کو کبھی کبھار روکنا پڑے گا تاکہ ہمیں عادت ہونے لگے اور مزاج میں نظم و ضبط آجائے۔ مثلاً آپ صبح اٹھیں تو خود کو پابند کریں کہ میں پہلے ایک گھنٹے میں موبائل استعمال نہیں کروں گا سوائے کسی انتہائی ایمرجنسی کال کے۔ ہفتے میں چند دن یا کسی مخصوص وقت میں سکرین سے دور رہیں۔ ٹی وی ، فلم ، میوزک ، وغیرہ سے پرہیز کریں۔ دنیا بھر میں اسے “Dopamine’s Detox” یا “Dopamine Fast” کا نام دیا گیا ہے۔ اگر آپ یوٹیوپ پہ تلاش کریں تو آپ کو اس سے متعلق انگریزی اور اردو میں کافی مواد مل جائے گا۔
آخری بات ، اپنے آپ کو بدلنا یا کسی بری عادت کو چھوڑنا ناممکن نہیں ہے لیکن مشکل ضرور ہے کیونکہ انسان کو آسانی زیادہ پسند ہوتی ہے۔ جن دوستوں نے مضبوط ارادے سے اپنی ایڈکشن کو چیلنج کیا وہ اس سے باہر بھی آئے ہیں اور میں ذاتی طور پہ اب ایسے بہت سے لوگوں کو جانتا ہوں۔
اللہ ہم سب کو توبۃ النصوح نصیب فرمائے۔ آمین
کیا کئی سال تک لگاتار مشت زنی کرنے والے لڑکوں کو شادی کرنی چاہیے ؟
یہ سوال بہت کثرت سے پوچھا جاتا ہے۔ ایسے لڑکے جو پانچ سے پندرہ سال یا اس سے بھی زیادہ مدت تک مشت زنی کی لت کا شکار رہے ہیں ، وہ کنفیوز ہیں کہ کیا اب بھی وہ شادی اور بیوی کے قابل ہیں یا نہیں ؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ شادی کرکے کسی کی بیٹی کی زندگی برباد کرنے والے ہیں ؟
سب سے پہلے تو یہ بات سمجھیے کہ آج کے اس پُر فِتن دور میں جب ہر طرف بے حیائی عام ہے ، لڑکوں کی اکثریت شادی سے پہلے مشت زنی کرنے اور فحش فلمیں دیکھنے کی بری عادت کا شکار ہوجاتی ہے۔ جو لڑکے اس لت کے بہت بڑے پیمانے پر عادی نہیں بنتے وہ بھی کبھی نہ کبھی دوستوں کے اکسانے پر یا اپنی فطری جبلت سے مجبور ہو کر یا جنسی فرسٹریشن نکالنے کے لیے کبھی کبھار مشت زنی کرلیتے ہیں۔ اس لیے اس لت میں پھنسنے والے آپ اکیلے نہیں ہیں اور نہ ہی ایسی مایوسی کی بات ہے کہ شادی سے پہلے مشت زنی کرنے والا شادی کے قابل ہی نہیں رہتا۔ ہاں ! یہ سچ ہے کہ مشت زنی کی عادت نقصان دہ ہے، جسمانی طور پر بھی اور ذہنی طور پر بھی۔ یہ انسان کو اس کی زندگی کے بڑے مقاصد بھلا کر ہر وقت خود لذتی کی سوچ میں پھنسا دیتی ہے۔
جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ دن میں دس بار بھی مشت زنی کرلیں کوئی فرق نہیں پڑتا ، وہ غلط کہتے ہیں۔
اور
جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ مشت زنی اور بچپن کی غلط کاریوں سے انسان شادی کے بالکل قابل ہی نہیں رہتا ، وہ بھی غلط کہتے ہیں۔
ہمیں اعتدال اور میانہ روی اپنانے کی ضرورت ہے اور یہی ہمارا پیارا دین ہمیں سکھاتا ہے۔ بہت سے لڑکوں نے مجھے بتایا کہ پہلے وہ اپنی کلاس کے لائق طالب علموں میں شمار ہوتے تھے اور کئی تو پوزیشن ہولڈر بھی تھے لیکن جب سے فحش فلموں اور مشت زنی کی لت لگی ، وہ پڑھائی میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ ان کا فوکس اور یکسوئی بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ جولوگ مشت زنی زیادہ کرتے ہیں ، وہ خود بھی محسوس کرتے ہیں کہ اس کام کے بعد وہ خود کو تھکا ہوا اور نڈھال محسوس کرتے ہیں۔ احساسِ گناہ بھی بے چین رکھتا ہے اور سب سے بڑی بات؛ اس غلیظ لت میں پڑنے والا انسان ، ہر وقت اس گندی لذت کو پورا کرنے کی فکر میں لگ جاتا ہے اور اس کی تعلیم اور زندگی کے باقی معاملات نظرانداز ہونےلگتے ہیں۔ اس لیے جس قدر جلد ہوسکے ، اس سے جان چھڑوانا ضروری ہے۔
دوسری طرف دیکھا جائے تو ایسے بہت سے مرد جنھوں نے کئی سال مشت زنی کی اور فحش فلموں کے عادی بھی رہے ، وہ شادی کے بعد ایک نارمل زندگی گذار رہے ہیں اور باپ بھی بنتے ہیں۔ بعض اوقات انہیں نفس میں سختی کی کمی اور ٹائمنگ کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن اچھی ڈائٹ اور ورزش، خصوصاً کیگل ایکسرسائز سے یہ مسائل حل ہوجاتے ہیں۔ یعنی اکثریت کو کسی دوائی کی ضرورت نہیں پڑتی اور صرف مشت زنی کو مکمل چھوڑ دینے ، اپنا لائف سٹائل بدلنے اور خود کو پرسکون رکھنے سے وہ ایک نارمل زندگی گزارنے لگتے ہیں۔ اس لیے بہت سالوں تک مشت زنی کرنے والے لڑکے بھی شادی کے قابل ہوسکتے ہیں اگر وہ سچے دل سے توبہ کریں اور اپنی زندگی بہتر بنانے کے لیے سنجیدہ ہوجائیں۔
یہاں ایک بات کی وضاخت ضروری ہے کہ اگر کوئی لڑکا پیدائشی نامرد ہو یعنی اس کا نفس ایک انچ سے بھی کم ہو اور نفس میں بالکل تناؤ نہ آتا ہو، یعنی زندگی میں کبھی نہ اسے شہوت آئی ہو نہ ہی نفس میں تناؤ آیا ہو تو ایسے بندے کو شادی نہیں کرنی چاہیے ورنہ وہ واقعی کسی لڑکی کے لیے آزمائش کا سبب بنے گا۔ اگرچہ ایسے لوگ بہت ہی کم ہوتے ہیں جن کو پیدائشی نامردی کے مسائل ہوں۔
اللہ رب العزت ہم سب کو توبۃ النصوح نصیب فرمائیں۔ آمین
مشت زنی ہوتی کیا ہے ؟
مشت زنی، جسے انگلش میں Mastrubate اور عربی میں “جلق” بھی کہتے ہیں، ایک خود لذتی کا طریقہ کار ہے جس میں مرد یا عورت اپنے ہاتھ سے اپنی شرم گاہ کو سہلا کر، رگڑ کر اور دبا کر اپنے جنسی احساسات کی تسکین کرتا ہے. یہ عمل بالعموم اس وقت سرانجام پاتا ہے جب انسان اپنی شہوت کو کنٹرول نہیں کرپاتا یا اسکے پاس کوئی صنفِ مخالف نہیں ہوتا.
شہوت آنے کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں مثلاً کوئی ہیجانی فلم، تصویر یا کوئی ایسا منظر دیکھ لیا ہو یا پھر بعض اوقات لوگوں کو اپنی تھکاوٹ کی وجہ سے شہوت آ جاتی ہے.
اسلام میں اس عمل کو سخت ناپسند کیا گیا ہے اور حرام کا درجہ دیا گیا ہے.
سائنسدانوں کے ہاں مشت زنی کو لے کر کئی قسم کی راۓ پائی جاتی ہیں، کچھ سائنس دان اسے غیر صحت مند سرگرمی کا نام دیتے ہیں اور کچھ اسے صحت کے لیے فائدہ مند قرار دیتے ہیں.
ہم نے اپنے تجربے کی روشنی میں اسے بہت ہی غیر صحت مند پایا ہے اور اسکے نقصانات بھی دیکھے ہیں.
ہم آنے والے دنوں میں میں اس پر اور بھی تفصیلی بات کریں گے.