بڑھتی عمر کے بچوں کے جذباتی یا نفسیاتی مسائل اور والدین کا کردار. (پہلا حصہ)


اولاد کی پرورش اور تربیت ایک کٹھن اور صبر آزما مرحلہ ہے۔ اگر اللہ رب العزت والدین کے دل میں اولاد کی بے پناہ محبت نا ڈال دیتے تو دنیا میں کوئی بھی ماں یا باپ اولاد کی پرورش میں وہ مشقت برداشت نہ کرپاتے جو انہیں کرنی پڑتی ہے۔ چنانچہ بچے کی پیدائش کے ساتھ ہی بلکہ یوں کہیے کہ حمل کی خوشخبری ملتے ہی ، بچے کے لیے بہتر سے بہترین خوراک ، لباس اور سہولیات کی منصوبہ بندی شروع ہوجاتی ہے۔ دنیا میں شاید ہی کوئی ماں یا باپ ایسے ہوں جو اپنے بچے کو اپنی استظاعت سے بڑھ کر سہولیات نہ دینا چاہتے ہوں بلکہ اپنا پیٹ کاٹ کر بچوں کو بہترین خوراک اور تعلیم دلوانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ماں اپنی رات کی نیند اور باپ دن کا آرام تک قربان کردیتا ہے۔ یہ تو ہوگیا زکر والدین کی چند قربانیوں اور کاوشوں کا جو ،اُن کے خیال میں بچے کی پرورش اور تربیت کے لیے ضروری ہیں۔ لیکن کیا بچوں کو جسمانی ضروریات اور مادی سہولیات فراہم کر دینے سے والدین کا فرض پورا ہوجاتا ہے ؟ ۔۔۔۔۔یا والدین کا فریضہ اس سے بھی بڑھ کر کچھ ہے ؟۔۔۔۔۔۔کیا ہم بچے کی نفسیاتی اور جذباتی ضروریات اور احساسات کو بھی اتنا ہی اہم سمجھتے ہیں جتنا اس کے لیے لباس ، خوراک اور ایک اچھا گھر بنانے کی دوڑ میں لگے ہیں؟اس بے حد اہم موضوع پہ ایک بہت بڑا سوالیہ نشان موجود ہے جس کا جواب تلاش کرنا بے حد ضروری ہے۔

جب بارہ اور چودہ سال کے کم سِن بچے مجھ سے واٹس ایپ پہ رابطہ کرتے ہیں اور ڈرے سہمے انداز میں یہ انکشاف کرتے ہیں کہ وہ کسی لت یا ایڈکشن میں گرفتار ہیں اور اپنا مسئلہ گھر میں کسی سے بھی شئیر نہیں کرسکتے تو مجھے یہ اندازہ لگانے میں کچھ مشکل پیش نہیں آتی کہ والدین اپنے بچوں سے کتنے دور ہیں ؟ ایک میلوں دور بیٹھا بچہ یا کوئی ٹین ایجر نوجوان جو بات میرے انباکس میں آکے شئیر کررہاہے وہ بات وہ اپنے والد ، چچا یا بڑے بھائی سے کیوں نہیں کہہ پاتا؟ کتنے ہی ایسے بچے ہیں جو اپنے نئے نئے بالغ ہوتے کزنوں ، کے ہاتھوں اپنی معصومیت کو پامال ہوتا بے بسی سے دیکھتے ہیں لیکن ڈر کی وجہ سے اپنے والدین سے زکر نہیں کرپاتے۔ جب بچہ شعور کی ابتدائی سطح پہ قدم رکھتا ہے تو اسے رہنمائی کی شدید ضرورت پڑتی ہے۔ وہ معصوم سوال تو پوچھتا ہے لیکن اپنی عقل یا فہم سے صحیح یا غلط کا فیصلہ نہیں کرپاتا۔ یہاں اسے والدین کی سب سے زیادہ ضرورت ہے لیکن آج کے ترقی یافتہ اور مادیت پرستی کے دور میں والدین نے بچوں کی مالی ضروریات کو ہی سب سے اہم سمجھ لیا ہے اور ان کی تکمیل کو اس طرح اپنی بنیادی ترجیح بنا لیا ہے کہ بچوں کی ذہنی ، جذباتی اور نفسیاتی نشوونماکے لیے والدین خاطر خواہ وقت نہیں دے پارہے۔ بچوں کو جو باتیں کسی سمجھدار شخص کو پاس بٹھا کر ڈھکے چھپے الفاظ میں ان کی سمجھ کے مطابق بتانی چاہیئں، ان نازک موضوعات پہ بھی بچے یا تو اپنے ہم عمر بچوں سے کچھ نہ کچھ سیکھ رہے ہیں یا انٹرنیٹ کا سہارا لینے پر مجبور ہیں جہاں اکثر اوقات یوٹیوب ویوز کی لالچ میں آدھی ادھوری اور گمراہ کُن معلومات کو سنسی خیز انداز میں پیش کیا جاتاہے۔

رہی سہی کثر سمارٹ فون کی آسان رسائی نے پوری کر دی ہے۔ ہمارا تین یا چار سال کا بچہ ہم سے فرمائش کرتا ہے کہ اس نے کسی جانور یا کارٹون کی کوئی ویڈیو ہمارے موبائل پہ دیکھنی ہے جیسے کہ میراچار سالہ بیٹا میرے فیس بک کی ریلز (شارٹ ویڈیوز) میں مرغیوں کی ویڈیوز دیکھتا ہے۔ ایسی صورتِ حال میں عین ممکن ہے کہ ہم اپنے چائے یا کافی کے کپ کی طرف صرف دو منٹ کے لیے متوجہ ہوں اور وہ سکرولنگ کرتے کرتے فیس بک ریلز میں کوئی بےہودہ ویڈیو دیکھ لے۔ٹیلی ویژن کھولیں تو وہاں الگ ہی مسائل ہیں۔ ناچ گانے سے سجے مارننگ شوز، بدتمیزی اور رقص کرکے وائرل ہونے والے ٹین ایجرز بچے اور رات آٹھ بجے کے پرائم ٹائم میں عشقیہ قصے اور سالی بہنوئی کے تعلق پہ مبنی واہیات ڈرامے ۔ اب بندہ جائے بھی تو کہاں جائے۔ غرض یہ کہ بچوں کی اخلاقی تربیت ایک ایسا مشکل معاملہ بن چکا ہے جیسے دہکتے کوئلوں پہ ننگے پاؤں چلنا۔ اس میں والدین کی غفلت بچے کی شخصیت میں خلا پیدا کرسکتی ہے ۔

والدین کو سوتے میں بھی اپنی آنکھیں کھلی رکھنی پڑ رہی ہیں کیونکہ یہ جاننا ضروی ہے کہ والدین کے سونے کے بعد بچے کی کیا سرگرمیاں ہیں ۔ ورنہ ناسمجھی میں ان کا بچہ کسی بھی بری لت کا آسانی سے شکار ہوسکتا ہے جن میں منشیات ، فحش فلمیں ، ہم جنس پرستی کا رجحان ، کسی کے ہاتھوں جنسی استحصال ، نازیبا ویڈیوز کی صورت میں بلیک میلینگ کا سامنا کرنا اور کم عمر لڑکیوں کا ہوس ذدہ جھوٹی محبت کے جال میں پھنسنا، چند عام مثالیں ہیں۔

یہاں ایک بات کا زکر کرنا ضروری ہے کہ خواتین کو ان نازک اور سنگین معاملات سے مکمل آگاہی حاصل ہونا بہت ضروری ہے جو بچوں کو پیش آسکتے ہیں۔ کیونکہ والد کا تو دن کا بیشتر حصہ روزگار کے حصول کی جدوجہد میں گزر جاتا ہے اور بچوں کا زیادہ وقت ماؤں کے ساتھ یا ان کی نگرانی میں ہی گزرتا ہے۔ اس لیے ماؤں کی تربیت اور ٹریننگ بہت ضروری ہے تاکہ وہ بچے کی دلچسپیوں اور رجحانات سے اس کے اندر آنے والی تبدیلیوں کا بروقت اندازہ لگا سکیں اور کسی بھی مسئلے کا سامنا کرنے کی بجائے قبل از وقت حل تلاش کیا جاسکے۔ میری والدہ آج بھی ٹیکنالوجی کی باریکیوں سے کافی حد تک ناآشنا ہیں اور یہ بات نہیں جانتی ہیں کہ موبائل اور کمپیوٹر کا کس حد تک منفی استعمال ہوسکتا ہے لیکن آج کے دور کی ماں کو ایسی بے خبری کی خدانخواستہ بہت بھاری قیمت چکانی پڑسکتی ہے۔ اس لیے میں اکثر اپنی بیوی کو ارد گرد ہونے والے واقعات اور ٹیکنالوجی میں آنے والی جدت سے آگاہ کرتا رہتا ہوں تاکہ وہ بچوں سے آگے نہیں تو ان کے ساتھ ساتھ چل سکے۔

بات کچھ لمبی ہوگئی اور پوسٹ میں مسائل کا زکر بھی بہت ہوگیا۔ بڑھتی عمر کے بچوں کے مسائل اس سے کہیں زیادہ ہیں جن کی ایک جھلک آپ کو اس تحریر میں دکھائی دی ہے۔ اگلی پوسٹ میں بچوں کی بہتر تربیت اور نگرانی کے لیے کچھ تجاویز والدین کی خدمت میں پیش کرنے کی کوشش کروں گا۔