بڑھتی عمر کے بچوں کے جذباتی یا نفسیاتی مسائل اور والدین کا کردار
(دوسرا اور آخری حصہ)

اس آرٹیکل کے پہلے حصے میں ہم نے ان مسائل کا ایک مختصر جائزہ لیا تھا جن کا سامنا بڑھتی عمر کے بچوں کو کرنا پڑتا ہے یا کرنا پڑسکتا ہے۔آج ہم انہی مسائل کے ممکنہ حل پر بات کریں گے یعنی والدین کا کردار کیا ہوگا۔

سب سے پہلی اور بنیادی تجویز تو یہ ہے کہ اپنے بچوں کے بہترین دوست بن جائیے۔ یہ بات ذہن نشین کرلیجیے کہ آپ کو اپنے بچوں کا فرینڈ نہیں بلکہ بیسٹ فرینڈ بننا ہے۔بیسٹ فرینڈ کون ہوتا ہے ؟ جس سے انسان اپنے دل کی ہر بات ، اپنے ذہن میں آنے والی ہر اُوٹ پٹانگ سوچ ، اپنے محسوسات اور اپنی بدلتی کیفیات ، بِنا کسی خوف اور شرمندگی کے شئیر کرسکتا ہے۔ جس طرح ایک بچے کے دل میں یہ بات بیٹھ چکی ہوتی ہے کہ جب بھی اس کے پیٹ میں درد ہوگا یا اسے کسی قسم کی جسمانی تکلیف پیش آئے گی اس نے فوراً اپنی ماں سے زکر کرنا ہے اور اس کے والدین اس کا کوئی نہ کوئی سدِباب کریں گے ۔ بالکل اسی طرح بچے کو یہ پتہ ہونا چاہیے کہ اس نے اپنی ہر الجھن اور زہن میں آنے والا ہر سوال اپنے ماں باپ سے شئیر کرنا ہے۔ یہ تعلق بچے کے بولنے سے لے کر تاحیات قائم رہنا چاہیے۔ بیٹی کے لیے ماں اور بیٹے کے لیے باپ سے بڑھ کر بہترین دوست دنیا میں کوئی اور نہیں ہوسکتا۔

اس سلسلے میں والدین کو بھی اپنا حصہ ڈالنا ہوگا۔ اپنے ضروری کاموں سے بچ جانے والا وقت بچوں کو دیجیے۔ آج کا باپ، دفتر یا کام سے واپس آکر موبائل سرفنگ اور شارٹ ویڈیوز کو دیکھ کر ریلیکس ہونے کی کوشش کرتا ہے۔ اس وجہ سے وہ بچوں کو مناسب وقت نہیں دے پاتا۔ یہی حال ماں کا ہے کہ گھر کے کاموں سے نمٹنے کے بعد بچ جانے والے وقت میں ، ساس بہو والا ڈرامے یا مہنگے ملبوسات کی ترغیب دلاتے مارننگ شوز دیکھ کر اپنی فرسٹریشن نکالی جاتی ہے۔ یقیناً سب والدین ایسا نہیں کرتے لیکن اکثریت کا یہی معاملہ ہے۔ چھوٹے بچے بہت زیادہ سوالات پوچھنے کے عادی ہوتے ہیں کیونکہ ان کی معصوم فطرت تجسس سے بھرپور ہوتی ہے۔ جلد ہی والدین ان کی فطرت سے تنگ آکر انہیں ڈانٹ کر خاموش کروانا شروع کردیتے ہیں۔ یہاں تک کہ ایک وقت آتا ہے کہ بچے اپنے والدین سے دور ہونے لگتے ہیں اور انہیں یقین ہوجاتا ہے کہ ان کے والدین ان کے لیے ایک مالی سپورٹ کا وسیلہ تو ہیں لیکن باقی معاملات کے لیے انہیں اپنے دوستوں یا دوسرے لوگوں سے رجوع کرنا ہے کیونکہ والدین کے پاس بچوں کو سننے کا وقت نہیں ہے۔ اگر آپ کے گھر میں بھی یہی معاملہ ہے تو اسے آج سے بدلنا شروع کیجیے۔ میاں بیوی دونوں ایک دوسرے سے بات کریں اور بچوں کو وقت دینا شروع کردیں۔ آپ کو تفریح سے ہرگِز منع نہیں کیا جارہا لیکن دن بھر میں چھ چھ گھنٹے بِلا مقصد موبائل یا ٹیلی ویژن سکرین سے چپکے رہنا ، ناصرف آپ کی دماغی صحت اور نظر کے لیے نقصان دہ ہے بلکہ آپ کے سب سے قیمتی سرمائے ، یعنی آپ کی اولاد کو بھی آپ سے بتدریج دور کررہا ہے۔ اس پہ ضرور سوچیے۔

جب بچہ سکول جانے کی عمر میں آجائے تو والدین کی ذمہ داری مزید بڑھ جاتی ہے۔ اس سے پہلے بچہ سارا دن ماں کی نگرانی میں تھا۔ اب وہ دن کا ایک حصہ گھر سے باہر گذارے گا اور اس حصے میں ماں اس کے ساتھ نہیں رہ سکتی۔ لیکن اب تک چونکہ آپ کے بچے کو ہر بات والدین سے شئیر کرنے کی عادت پڑ چکی ہوگی تو اگر بچے کے ساتھ کچھ بھی روٹین سے ہٹ کر ہوگا تو آپ کے علم میں آجائے گا۔ اچھے سکولوں میں پیرنٹ ٹیچر میٹنگ کا باقاعدگی سے اہتمام کیا جاتا ہے جس کے ذریعے والدین کو بروقت بچے کی تعلیمی کارکردگی کے ساتھ ساتھ اس کی اخلاقی تربیت کا بھی اندازہ ہوتا رہتا ہے۔ اگر سکول آتے جاتے بچے کو کوئی نامناسب انداز میں چھوئے، چاہے وہ وین کا ڈرائیور ہو یا کوئی چوکیدار یا پھر محلے کا کوئی اوباش تو بچے کو پراعتماد ہونا چاہیے کہ وہ اپنے والدین کو آگاہ کرسکتا ہے۔ ایسی صورتحال یا بچے کے تجسس بھرے سوالوں پر کبھی بھی غصہ نہ کیجیے نا ہی بچے کو ڈانٹ کر خاموش کروائیں۔ اگر آپ کا کم سِن بچہ اپنے سے بڑے کسی کزن ، رشتہ دار یا کسی استاد کے ساتھ حد سے زیادہ جذباتی وابستگی کا اظہار کرے یا ان سے ملنے میں خوفزدہ ہو، تو دونوں صورتوں میں غیر محسوس طریقے سے کوئی بھی پھڈا بنائے بغیر اس معاملے کی تحقیق کیجیے۔ بچوں کو ہمیشہ اپنے ہم عمر لوگوں سے دوستی کی عادت بنانے کی تلقین کیجیے اور اس معاملے پہ ان کی نگرانی بھی کرتے رہیے۔

اپنے بچوں کو ان کے بچپن سے ہی موبائل اور سکرین ایڈکشن کے نقصانات ، ان کی عمر کے حساب سے سمجھاتے رہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ انہیں جسمانی سرگرمیوں کی ترغیب دینا اور فوائد بتانا بہت ضروری ہیں۔ آج کے بچے اور نوجوان ، موبائل ایڈکشن کی وجہ سے تیزی سے سماجی تعلقات سے دور ہوکر سوشل اینزائٹی کا شکار ہوررہے ہیں۔ اگر بچے کے رویے میں کوئی غیر فطری تبدیلی نوٹ کریں تو وجہ جاننے کی کوشش کریں اور اس کا حل بھی تلاش کریں۔ ایک غیر فظری رویہ جو معاشرے میں بہت تیزی سے عام ہورہا ہے وہ لڑکوں اور لڑکیوں دونوں میں جنسِ مخالف کی طرف رغبت کی بجائے اپنی ہی جنس کی کشش محسوس کرناہے۔ اس حوالے سے بے شمار لڑکوں نے مجھ سے رابطہ کیا اور بتایا کہ انہیں زندگی میں کبھی بھی کسی لڑکی کے حوالے سے کوئی فیلنگ نہیں آئی بلکہ صرف لڑکے اچھے لگتے ہیں اور ہر دوسرے مہینے کسی نئے لڑکے یا مرد سے ایسی جذباتی وابستگی ہوتی ہے کہ رات رات بھر اس سے موبائل پہ بات چیت رہتی ہے اور اس کے میسجز کے انتظار میں دل بے چین رہتا ہے۔ یہ ایک نفسیاتی مسئلہ ہے اور والدین کی بروقت مداخلت اور بچوں کی مناسب کونسلنگ سے اس پر قابو پایا جاسکتاہے۔ اگر نیا نیا بالغ ہوتا لڑکا ، بیت الخلاء میں معمول سے زیادہ وقت گزارنے لگے تو اس پر بھی توجہ کی ضرورت ہے۔ آج کل بچے سکول میں اپنے دوستوں سے خود لذتی کے نئے نئے طریقے سیکھ کر آتے ہیں اور پھر اس کی مشق بھی کرتے ہیں۔ مجھے ایک نوجوان نے بتایا کہ بارہ سال کی عمر میں جب اس کے پاس اپنا موبائل بھی نہیں تھا ، تب سے وہ اپنی والدہ کے موبائل پہ چھپ کر آنلائن پورنوگرافی دیکھتا رہا ہے اور بعد میں وہ ہِسٹری ڈیلیٹ کردیتا تھا۔ ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستانی میں فحش ویب سائٹس پہ پابندی ہے۔ اب یہاں سے آپ بچوں کی ذہانت یا تخریب کاری کا اندازہ لگا لیجیے کہ وہ ان ویب سائٹس تک بھی کم عمری میں رسائی حاصل کرلیتے ہیں۔ اس لیے بچے کی ہر سوچ اور اس کے رویے میں آنے والی ہر تبدیلی سے والدین کو آگاہ رہنا چاہیے۔

چھوٹے اور نابالغ بچوں کو پرائیویسی جیسی ماڈرن بلا کے نام پہ اکیلا کمرہ مت دیجیے۔ بہنوں کو ایک کمرہ اور بھائیوں کو ایک کمرہ شئیر کرنا سکھائیے لیکن بستر الگ الگ ہو۔ وہ ایک دوسرے کی موجودگی کا لحاظ کرتے ہوئے غیر اخلاقی کاموں سے بچنے کی کوشش کریں گے۔ بچوں کو اپنا کمرہ لاک کرنے کی عادت نہیں ہونی چاہیے۔ لیکن اب اگر یہاں آپ بچوں پہ یہ ظاہر کریں گے کہ آپ کو ان پر اعتماد نہیں تو اس سے ان کی شخصیت مجروح ہوگی اور سوچ میں منفیت آئے گی۔ آپ ان سے یوں کہیے کہ دروازہ اس لیے لاک نہیں کرنا کہ کسی کی اچانک طبیعت خراب ہوسکتی ہے یا بجلی کا کرنٹ وغیرہ لگ سکتا ہے، ایسی صورت میں کمرہ لاک ہونا ، نقصان دہ ہوگا۔ بڑھتی عمر کے بچوں کو گھر میں اتنا پیار اور توجہ دیں کہ انہیں محبت کے نام پہ گھر سے باہر کوئی رنگین دھوکہ نہ ملے خصوصاً بچیوں کو۔ جن بچوں کو یہ یقین ہوتا ہے کہ ان کے والدین ان کے ساتھ مخلص ہیں اور ان سے بے پناہ محبت کرتے ہیں ، عموماً وہ وقت سے پہلے شادی یا محبت کے چکروں میں نہیں پڑتے اور ان معاملات میں فیصلے کا اختیار اپنے والدین کے سپرد کردیتے ہیں۔

ویسے تو اس موضوع پہ بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے لیکن فی الحال کے لیے اتنا کافی ہے ورنہ پڑھنے والے اُکتا جائیں گے۔ آخر میں والدین سے ایک گزارش ہے کہ اپنا قیمتی وقت موبائل پہ مزاحیہ ویڈیوز ، عشقیہ ڈراموں اور طویل سیزنز اور سیریز دیکھنے پر صرف کرنے کی بجائے اپنے بچوں کو اپنی توجہ کا محور اور مرکز بنائیے۔ اپنے زریعہ معاش کو بھی مناسب وقت ضرور دیجیے لیکن اس کے پیچھے دن رات ایک کرنے سے گریز فرمائیے۔ رزق دینے والی زات اللہ رب العزت کی ہے۔ اگر آپ اپنے بچوں کی اچھی تربیت کرنے میں کامیاب ہوگئے تو یقین کیجیے کہ وہ اپنے لیے خود زندگی میں بہت کچھ کرلیں گے۔ آپ کو لمبی چوڑی جائیداد چھوڑ کر جانے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔

اپنی تمام تر کوششوں کے بعد اللہ سے اولاد کی ہدایت اور بھلائی بھی مانگتے رہیے۔ اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔

رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَ ذُرِّیّٰتِنَا قُرَّةَ اَعْیُنٍ وَّ اجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا۔
اے ہمارے رب ! ہمارے ازواج اور ہماری اولاد سے ہمیں آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرمااور ہمیں پرہیزگاروں کا پیشوا بنا۔